Monday, March 25, 2019

مہاتما گاندھی کے پرسنل سکریٹری وی کلیانم کی زبانی: ’گاندھی جی کا آ خری دن‘

دستاویز : ایسا عام طور پر کہا جا تا ہے کہ گاندھی جی جب آ خری سانس لے رہے تھے تو انہوں نے ’’ہے رام‘‘ پکارا۔مگر سچ یہ ہے کہ جب گاندھی جی کو گولی لگی، تب ان کی زبان سے ایک لفظ کا ادا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔یہ فرضی بات کسی منچلے رپورٹر نے لکھ دی اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا نے اس کو سچ مان لیا۔

Photo: PTI
فوٹو: پی ٹی آئی

وی کلیانم مہاتما گاندھی کے پرسنل سکریٹری تھے۔ان کا یہ مضمون ایم کے گاندھی ڈاٹ او آرجی  پر انگریزی میں پڑھا جاسکتاہے۔ گاندھی جی کی شہادت کے عینی شاہد کے قلم سے لکھا یہ مضمون ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تحریر اور بھی کئی معنوں میں اہم ہے۔لہذا آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ ایم کے گاندھی ڈاٹ او آر جی کے شکریے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔سید کاشف

9ستمبر 1947 کو مہاتما گاندھی کلکتہ سے دلی واپس آ ئے تھے۔گاندھی جی تیس جنوری مارگ پر واقع برلا ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔حویلی کی نچلی منزل پر ایک بڑا کمرہ تھا ، جس میں قالین بچھی ہوی تھی۔کمرے سے ایک ٹوائلٹ بھی منسلک تھا۔یہیں ملا قاتی بیٹھتے تھے۔کمرے کے ایک کونے میں روئی کا ایک موٹاگدا بچھا ہوا تھا۔ ٹیک لگانے کے لئے، گدے پر ایک بڑا تکیہ رکھا ہوا تھا۔آگے کی جانب ایک ڈیسک بھی موجود تھا۔ کمرے کے دوسرے حصے میں ایک میز اور ایک کرسی لگی تھی۔ میز پر خطوط کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔گاندھی جی عام طور پر پورا دن یہیں گزارتے تھے۔ خطوط کا جواب لکھتے، لوگوں سے ملتے، چرخے پر سوت کاتتے ، اور قیلولہ کرتے۔
 30 جنوری1948 (جمعہ) کی شروعات ایک عام دن کی طرح ہوئی تھی۔ اس جمعہ کی شام اتنی اندوہناک ہوگی، ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ معمول کے مطابق ہم صبح کے ساڑھے تین بجے پوجا کے لئے اٹھ گئے۔جب ہم روز مرہ کے کام نپٹا رہے تھے، تب ہما رے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس دن کی شام، شام گریہ ہونے والی ہے۔گاندھی جی نے اپنی پوتی آبھا کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے آ واز لگائی۔
ضروریات سے فارغ ہوکر گاندھی جی ٹوائلٹ سے باہر آ ئے اور گدے پر براجمان ہو گئے۔ہم بھی ان کے سامنے با ادب بیٹھ گئے۔ گاندھی جی کا دن ہمیشہ پوجا سے شروع ہو تا تھا۔ان کی پوجا میں سبھی مذاہب کی مقدس کتابوں سے تلاوت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر ہندوازم اور اسلام۔اس عمل کے پیچھے ان کی منشا یہی تھی کہ تمام مذاہب کے مابین اتحاد قائم رہے۔
گاندھی جی نے اپنی آ نکھیں بند کر لیں۔ ان کا میڈیٹیشن شروع ہو چکا تھا۔ آبھا ابھی تک سو رہی تھی۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ پوجا میں غیر حاضر تھی۔آ بھا نہیں آ ئی اور پوجا مکمل ہو گئی۔ پوجا ختم ہوتے ہی، منو کچن میں گئی اور گاندھی جی کے لئے صبح کا مشروب (ایک گلاس گرم پانی میں ایک چمچ شہد اورایک چمچ لیموکا رس)لے آ ئی۔ جب وہ گاندھی جی کو گلاس تھما رہی تھی، تو گاندھی جی گجراتی میں کہنے لگے؛ایسا معلوم پڑتا ہے وہ لوگ جو ہمارے قریب رہتے ہیں، ان کے بیچ بھی میر ا اثر گھٹتا جا رہا ہے۔پوجا آپ کی روح کو پاکیزگی بخشتا ہے۔مجھے دکھ ہے کہ آبھا پوجا میں شامل نہیں ہوئی۔ تم جانتی ہو ، میرے نزدیک پوجا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔اگر تم میں ہمت ہے، تو تم میری ناراضگی کی خبر اس تک پہنچا دینا۔ اگر وہ پوجا میں شامل نہیں ہونا چاہتی ہے، تووہ یہاں سے جا سکتی ہے۔یہ اس کے لئے بھی اچھا ہوگا، اور ہمارے لئے بھی۔
 اسی دوران آ بھا جگ گئی اور اپنا کام کرنے لگی۔ گاندھی جی نے اسے خود سے نہیں ٹوکا۔وہ ایسا کیوں نہیں کرتے، یہ ہم سب جانتے تھے۔ میں ان کے قریب بیٹھا رہا ۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ مجھے اس دن کی ذمہ داریاں سونپیں گے۔گاندھی جی چاہ رہے تھے کہ میں ان کے سیوا گرام کے دس روزہ دورے کے متعلق انتظامات کروں۔ انڈین نیشنل گانگریس کی نئی آ ئین کی ٹائپ شدہ پہلی ڈرافٹ میرے ہاتھ میں تھی، جوگاندھی جی نے گزشتہ روز مجھے ڈکٹیٹ کی تھی۔ میں نے ڈرافٹ انہیں تھما دیا۔ وہ چاہ رہے تھے کہ گانگریس کو تحلیل کرکے اسے نئے سرے سے قائم کیا جائے۔ گاندھی جی کو اس وقت ڈرافٹ پڑھنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔انہوں نے میرے سینئر پیارے لال جی کو بلا یا اور انہیں یہ ہدایت دی کہ وہ اسے باریکی سے پڑھیں اورجہاں ضرورت محسوس ہو، تصحیح کریں، اور اپنی رائے دیں۔
 ان دنوں دہلی کی حالت بہت خراب تھی۔ پاکستان سے بڑی تعداد میں ہندو مہاجرین کے آ جانے سے جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے۔پاکستا ن میں مسلمانوں کے ذریعے کئے گئے برےسلوک کے سبب، ہندو یہ چاہ رہے تھے کہ دہلی کے مسلمانوں سے اس کا بدلہ لیا جائے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کا وفد ہر روز گاندھی جی سے ملنے آ تا تھا۔وہ یہ بات چیت کرتے تھے کہ کیسے مسئلہ کا حل نکا لا جائے اور دلی میں حالات کو معمول پر لایا جائے۔
سردی کے ان ایام میں گاندھی جی دھوپ میں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ وہ لان میں لگی چارپائی پر بیٹھے رہتے۔ان کا ہر دن مصروف دن ہوا کرتا تھا۔ وہ شاید ہی کبھی بیکار بیٹھتے تھے۔ جب کوئی میٹنگ نہیں ہوتی، تو وہ گجراتی، ہندی یا پھر انگریزی میں خط یا مضمون لکھا کرتے ۔گرچہ وزراء اور دیگر معزز افسران پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق، گاندھی جی سے ملنے آ تے تھے، مگر پنڈت نہر وکا یہ معمول تھا کہ کہ اگر وہ شہر میں ہیں تو ہر روز آ فس جاتے ہوے صبح قریب نو بجے ضرور آ تے اور گاندھی جی سے ملاقات کرتے۔
اس دن وہ خاص لوگ جو گاندھی جی سے ملنے آئے، ان میں محترمہ آ رکے نہرو بھی تھیں۔ وہ صبح 6 بجے آ ئیں تھیں۔ انہیں دو پہر میں امریکہ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ان کی درخواست پر گاندھی جی نے انہیں اپنی ایک دستخط شدہ فوٹو بھی دی، جس پر انہوں نے ایک پیغام بھی تحریر کیا؛ ایک غریب ملک کی نمائندہ کے طور پر ، آپ کو وہاں سادہ اور کفایت شعار زندگی گزارنی چاہئے۔’ دو بجے، مارگریٹ بورک وہائٹ (مشہور فوٹو گرافر، لائف میگزین) نے گاندھی جی کا انٹر ویو لیا۔اپنی بات چیت کے دوران انہوں نے گاندھی جی سے پوچھا؛’آپ نے ہمیشہ کہا ہے کہ آپ 125 سال تک زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ آ پ کو یہ امید کہاں سے آ تی ہے؟’ گاندھی جی نے انہیں جب جواب دیا تو وہ حیرت میں پڑ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ اب کیا ہو گیا تو انہوں نے کہا؛’دنیا میں رو نما ہونے والے ہولناک واقعات؛ میں اب اس اندھیرے میں نہیں جینا چاہتا۔’
برلا ہاؤس میں گاندھی جی کا زیادہ وقت خطوط لکھنے، لوگوں سے ملنے، یا پوجا کرنے میں گزرتا تھا۔ مارگریٹ بورک وہائٹ کے جانے کے فورا ًبعد، پروفیسر این۔ آ ر۔ ملکھانی (ڈ پٹی ہائی کمشنر آ ف پاکستان) او ر دو دیگر معزز حضرات تشریف لائے۔ انہوں نے سندھ کے ہندوؤں کی بری حالت کا ذکر کیا۔ ان کو تحمل کے ساتھ سننے کے بعد گاندھی جی نے جواب دیا؛’یہ سب نہیں ہوا ہوتا، اگر لوگوں نے میری بات سنی ہوتی۔ میں جو بولتا ہوں، لوگ اسے آئی گئی کر دیتے ہیں۔مگر جو سچ ہے وہ میں کہتا جاؤں گا۔’


 بی بی سی کے باب اسٹمسن گاندھی جی کو پوجا کے بعد ملنے والے تھے۔ انہوں نے پہلے ہی گاندھی جی کو چند سوالات لکھ بھیجے تھے۔ وہ تشریف لاچکے تھے اور لان میں انتظار کر رہے تھے، جہاں گاندھی جی پوجا کرنے والے تھے۔ وزیر اعلیٰ یواین ڈھیبر، رسیکل پاریکھ (کاٹھیاوار سے) اور مشہور رائٹر ونسنٹ شیان(جنہوں نے آخری دنوں میں گاندھی جی کے کئی انٹرویوز لئے تھے) بھی آ گئے تھے۔ان لوگوں نے پہلے سے کوئی اپوائنمنٹ نہیں لی تھی۔وہ بس اس امید سے آ گئے تھے کہ گاندھی جی سے ملاقات ہو جائے گی۔مگر، ان سب کو مایوسی ہاتھ لگی۔
برلا ہاؤس کا اپنا واچ مین ہوا کرتا تھا۔قرآن کی تلاوت کے حوالے سے کچھ لوگوں نے گاندھی جی کی گزشتہ سال کی پبلک میٹنگز میں اپنا اعتراض جتایا تھا۔ اسی بات کا خیال کرتے ہوے، سردار پٹیل (بطور وزیر داخلہ) نے ایک حکم جاری کیا، جس کے تحت احتیاط کے لئے ایک ہیڈ کانسٹبل اور چار کانسٹبلز برلا ہاؤس میں تعینات کئے گئے۔
20 جنوری کو پوجا کے دوران ایک بم پھٹا تھا۔بم مدن لال( جو ایک پنجابی مہاجر تھا) نے پھینکا تھا۔ حالانکہ اس کا نشانہ چوک گیا اور گاندھی جی بچ گئے ، مگرایک دیوار دھماکہ کی زد میں آکر منہدم ہو گئی تھی۔ اور کچھ نہیں ہوا۔ گاندھی جی کو کبھی یہ گمان بھی نہیں ہوا کہ کوئی انہیں مارنے آ یا تھا۔ در اصل گاندھی جی نے ہندوستانی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اپواس رکھا تھا، جس کے تحت بھارت نے پاکستان کے 50 کروڑ روپے روک لیے تھے۔ اس فیصلہ کی بنیا د یہ بنائی گئی تھی کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کرنے اور اسے ہتھیانے کے لئے آ فریدی قبائلی لوگوں سے سازش رچی ۔ گاندھی جی کی زندگی کی خاطر ہندوستانی سرکار جھک گئی تھی۔ پاکستان کا پیسہ بھی ادا کر دیا گیا تھا۔ گاندھی جی کے اس عمل سے کٹر ہندو ناراض ہو گئے تھے۔انہیں ایسا لگا تھا کہ گاندھی جی مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کر رہے تھے، اور ان سب سے ہندوؤں کا نقصان ہو رہا تھا۔ مندرجہ بالا بم کا واقعہ اسی کا نتیجہ تھا۔
لہذا برلا ہاؤس میں پولیس سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ انہیں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ہراس شخص کو گیٹ پرر و کیں گے جو انہیں مشکوک لگتے ہیں۔ لیکن، پولیس نے یہ مشورہ دیا کہ صرف مشکوک نہیں، انہیں ہر شخص کو چیک کرنے کی اجازت دی جائے۔ جب ایس پی صاحب نے مجھ سے اس حوالے سے رابطہ کیا، تو میں نے گاندھی جی سے اس بابت بات کی۔ لیکن وہ اس بات کے لئے راضی نہیں ہوئے۔ میں نے ایس پی کو گاندھی جی کی رائے سے مطلع کر دیا۔ جب یہ بات اعلیٰ افسران کو معلوم ہوئی توڈی آئی جی صاحب خو د تشریف لے آ ئے ۔ انہوں نے گاندھی جی سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ میں انہیں اندر لے گیا۔ ڈی آ ئی جی نے گاندھی جی کو بتلا یا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، لہذا انہیں یہ اجازت دی جائے وہ اندر آ نے والے ہر شخص کی تلاشی لیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کچھ انہونی ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں پولیس پر ساری ذمہ داری عائد ہو جائے گی۔
گاندھی جی نے ڈی آ ئی جی کو صاف صاف کہہ دیا کہ ان کی زندگی بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔اگر انہیں مرنا ہوگا، وہ مر جائیں گے۔انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔’’وہ لوگ جو آ زادی کی بجائے حفاظت کوترجیح دیتے ہیں، انہیں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ وہ شاید اس بات کے لئے راضی ہو جاتے کہ عام پوجا کو بند کر دیا جائے، مگر لوگوں کی تلاشی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لہذا، پولیس کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ سادہ لباس میں رہیں اور مشکوک لوگوں پر نظر رکھیں۔ انہیں یہ بھی ہدایت دی گئی کہ جب گاندھی جی پوجا کے لئے جائیں اور جب وہ وہاں سے واپس آئیں، اس دوران یہ یقینی بنا یا جائے کہ ان پر کوئی حملہ نہ کرے۔ دو بجے ، آ بھا اور منو، گاندھی جی سے اجازت لیکر، کچھ دوستوں سے ملنے گئیں تھیں۔انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ شام کی پوجا میں شامل ہونگی۔
اس طرح گاندھی جی کو شام کا کھانا پروسنے کا ذمہ مجھ پر آ ن پڑا۔ گرچہ سرکار کو کام کرتے ہوے صرف پانچ مہینے ہوے تھے، میڈیا میں نہرو اور پٹیل کے بیچ کے مبینہ اختلافات کاشور تھا۔ گاندھی جی اس افواہ سے بہت پریشان تھے۔ وہ اس افواہ کی تردید کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہاں تک بھی سوچ رہوے تھے کہ سردار پٹیل کو کہیں گے کہ وہ استعفیٰ دے دیں تاکہ نہرو ملک کی باگ ڈور آ زادانہ طور پر سنبھال سکیں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ انہوں نے پٹیل کو گفتگو کے لئے 4 بجے بلا یا تھا۔ وہ ان سے اس موضوع پر پوجا کے بعد بات کرنے والے تھے۔ لیکن خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ پٹیل اپنی بیٹی منی بین کے ہمراہ وقت پر آ گئے تھے۔ گاندھی جی اس وقت شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ جب وہ لوگ بات کر رہے تھے،تبھی آ بھا اور منو بھی واپس آ گئے تھے۔
پوجا 5بجے شر وع ہونی تھی۔پانچ بج گئے مگر پٹیل اور گاندھی جی کی گفتگو چلتی رہی۔ گفتگو کی اہمیت اور انکی سنجیدگی کو بھانپتے ہوے ،کسی نے ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا۔لڑکیوں نے سردار پٹیل کی بیٹی کو اشارہ کیا، تب گفتگو ختم ہوئی۔ گاندھی جی ٹوائلٹ گئے۔ اور پھر اس کے بعد سیدھے پوجا گراؤنڈ کی طرف بڑھنے لگے، جو تیس سے چالیس گز دور تھا۔ چار پانچ زینوں کے بعد، بڑا سا لان تھا۔ گاندھی جی پندرہ منٹ لیٹ ہو گئے تھے۔ تقریبا ًد و سو پچاس لوگ گاندھی جی کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ آئے، سب ایک ساتھ بول پڑے: گاندھی جی آ گئے۔ پھرسب کی نگاہیں گاندھی جی کی جانب ٹک گئیں۔معمول کے مطابق گاندھی جی اپنی دونوں پوتیوں کے کندھوں کے سہارے ہلکے ہلکے قدموں سے آ گے بڑھ رہے تھے۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔نگاہیں زمین پر ٹکی تھیں۔ میں ان کے ٹھیک بائیں طرف ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
میں نے سنا گاندھی جی لڑکیوں کو ڈانٹ پلا رہے تھے۔’’میں دیر ہو گیا، مجھے یہ با الکل بھی پسند نہیں ہے۔‘‘ جب منو نے گاندھی جی سے کہا کہ چونکہ انکی گفتگو کسی اہم موضوع پر ہورہی تھی، لہذا ان لوگوں نے بیچ میں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا ، توگاندھی جی نے فور ا جواب دیا؛’’ایک نرس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مریض کو وقت پر دوا دے۔ دیر ہونے کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘
ہم پرارتھنا کے لئے مخصوص چبوترے کو لگی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔لوگ ہاتھ باندھے ہوے گاندھی جی کے استقبال میں کھڑے تھے۔ گاندھی جی نے سبھی کا خیر مقدم کیا۔ لوگ گاندھی جی کے لئے راستہ بنا رہے تھے۔ اسٹیج سیڑھیوں سے قریب 25 فٹ اوپر تھا۔اسٹیج پر ایک فٹ اونچی لکڑی کی ڈائس تھی،گاندھی جی اسی پر بیٹھتے تھے۔قاتل (ناتھو رام گوڈسے) ظاہر ہے اسی بھیڑ میں گاندھی جی کا انتظار کر رہا تھا۔وہ اپنی جیب میں ریوالور چھپائے ہوئے تھا۔گاندھی جی نے بہ مشکل پانچ چھ قدم بڑھا ئے ہونگے کہ قاتل نے با لکل قریب سے لگاتار کئی گولیاں فائر کر ڈالیں۔ گاندھی جی وہیں ڈھیر ہو گئے اور لمحوں میں رخصت ہو گئے۔خون دھاڑے مار رہا تھا۔اسی ہماہمی میں ان کا چشمہ پارہ پارہ ہو گیا تھا۔جوتے کہیں کے کہیں پڑے تھے۔میرے حواس باختہ ہو گئے تھے۔تھوڑی دیر کے لئے میں اپنا سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا۔ بعد میں، جب میں تنہا تھا،میں نے دیکھا میری آنکھیں بھر آ ئیں تھیں۔
چند ہی وقفے میں خبر دور دور تک پھیل گئی ۔منٹوں میں لوگوں کا ہجوم برلا ہوؤ س کے با ہر امنڈ پڑا تھا۔ مجبو راً گیٹ بند کر دیا گیا تا کہ لوگ کیمپس کے اندر نہ آ سکیں۔پٹیل تو پہلے ہی جا چکے تھے۔ میں اپنے کمرے میں بھا گا، اور ٹیلیفون کے ذریعے نہرو کے آفس کو یہ اطلاع دے دی۔ ان دنوں ہم کسی بھی وزیر کے گھربغیر کسی روک ٹوک کے داخل ہو سکتے تھے۔ میں کسی طرح بھیڑ کو چیرتے ہوے باہر نکلا اور کار میں بیٹھ کر سیدھا پٹیل کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا، تاکہ ان کو اس ناگہانی کی خبر دے سکوں۔ان کا گھر بمشکل پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔
اسی دوران، گاندھی جی کے مردہ جسم کو اٹھا کر انکے کمرے میں رکھا گیا۔ایک چٹائی پر انہیں لٹا دیا گیا تھا۔ لوگ انکے ارد گرد کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا ، گاندھی جی سو رہے ہیں۔ان کا جسم کافی دیر تک گرم رہا۔وہ رات کتنی اندوہناک تھی، بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف چند لوگ نہیں، بلکہ دنیا بھر کے لا کھوں لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ان سب کے لئے، جن کی خاطر گاندھی جی نے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ اور جن کی خاطر وہ مر گئے تھے۔
جیسے ہی گاندھی جی کی نعش کو انکے کمرے میں لے جا یا گیا، باہر بھگدڑ مچ گئی۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اسے گاندھی جی سے وابستہ کوئی نہ کوئی چیز ہاتھ لگ جائے، تاکہ وہ اسے گاندھی جی کی نشانی کے طور پر سنجو کر رکھ سکے۔ کچھ لوگ تو زمین کے اس حصے سے مٹھی بھر مٹی ہی اکٹھا کرنے لگے، جہاں گاندھی جی قاتل کی گولی کھاکر گر پڑے تھے۔نتیجتاً اس جگہ پر ایک بڑا گڈھا بن گیا۔خیر، پھر اس جگہ کوگھیر لیا گیا۔ایک گارڈ بھی وہاں تعینات کیا گیا۔
پرارتھنا سبھا میں ہوئے بم بلاسٹ کے پہلے اور پھر اس کے بعد، گاندھی جی کی حفاظت کے سلسلے میں سرکار کے ذریعے اٹھا ئے گئے اقدام کا ذکر کرتے ہوے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے یہ بیان کیا کہ؛’’میں نے خود باپو سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ پولیس کو اپنی ڈیوٹی کرنے دیں تاکہ وہ ان کی حفاظت کر سکیں۔ مگر وہ راضی نہیں ہوئے۔یہ میرے لئے ، ملک کے لئے اور پوری دنیا کے لئے ناقابل تلا فی نقصان ہے۔مجھے اور پولیس کو جس بات کا اندیشہ تھا وہ سچ ثابت ہو گیا۔ قاتل ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا نے میں کامیاب رہا۔اور گاندھی جی کے وہ معنی خیز جملے کہ اگر ان کی موت لکھی ہوگی تو وہ واقع ہو کر رہے گی، چہ جائے کہ کتنے بھی حفاظتی انتظام کیوں نہ کر لیے جائیں، باالاخر صحیح ثابت ہو گئے۔‘‘
ایسا عام طور پر کہا جا تا ہے کہ گاندھی جی جب آ خری سانس لے رہے تھے تو انہوں نے ’’ہے رام‘‘ پکارا۔مگر سچ یہ ہے کہ جب گاندھی جی کو گولی لگی، تب ان کی زبان سے ایک لفظ کا ادا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ ہاں البتہ یہ بات صحیح ہے کہ گاندھی جی اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ جب ان کی روح نکل رہی ہو، تب ان کی زبان پر رام کا نام ہو۔یہ فرضی بات کسی منچلے رپورٹر نے لکھ دی اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا نے اسے سچ مان لیا۔حیرت کی بات ہے کہ کبھی کسی نے اس کی تصدیق کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
ایک سراسر جھوٹ کو سچ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اگر وہ بیمار ہوتے، یا بستر مرگ پر ہوتے ، تو وہ ضرور رام کا نام لیتے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں رام کا نام لینے تک کا موقع نہیں دیا گیا۔گاندھی جی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں، پرارتھنا سبھا کے بعدکے بھاشن میں، کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھگوان انہیں اپنے گھر بلا لے۔ وہ نہیں چاہتے کہ وہ زندہ رہیں اورملک  میں ہو رہے مظالم کے خاموش گواہ بنیں۔ شا ید بھگوان نے ان کی منتیں سن لی۔ ان کی موت اس معنی میں عظیم تھی کہ ان کی روح تب پرواز ہوئی جب وہ خدا کی طرف رجوع ہونے جا رہے تھے۔جب ان کی روح نکلی، انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔انہیں ایک لمحے کے لئے بھی کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔
(سید کاشف پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں مترجم  ہیں۔)

http://thewireurdu.com/51452/v-kalyanam-personal-secretary-mahatma-gandhi-the-last-day-of-mahatma-gandhi/

Fortieth Anniversary of Iranian Revolution: How Iran became Islamic Republic

                                                                                         Syed Kashif
This February marks 40th anniversary of Iranian Revolution. 1979 Iranian Revolution—having overthrown the last king of Pahlavi dynasty Mohammed Reza Shah Pehlavi—had led to religious establishment. Iran became ‘Islamic Republic of Iran’. A lot is being talked about how ‘Islamic Republic’ has survived and lived a long period of forty years. There is no doubt that post-revolutionary Iran has seen many turbulent days. People of Iran have come on the street several times and expressed their anguish. However, they have not often been categorical in their demand and questioned the legitimacy of the religious establishment. On the other hand, every time, Islamic Republic has stood muscular. What is the reason behind this? The answer lies in the ideology of Islamic Republic of Iran. It has been devised so formidably and derived so prudently (from Shiite Islam) that to question the same one needs to put himself on risk in terms of politics as well as religion. Therefore, let us take this opportunity to understand the nucleus of this ideology and discuss as to how exactly Iran turned into an ‘Islamic Republic’.
The success of Iranian Revolution is largely endowed to the failure of Shah. In mid 1970s there were immense international as well as domestic pressure on the Shah to relax police controls and human rights violations, bring in reform and social justice, allow freedom of expression and individual liberty. 1979 Revolution was, therefore, the greatest movement of Iran for freedom, individual liberty, protection of human rights, accountable and constitutional government, freedom of press and so on.
It was Cold War period when the revolution took place. At that time Iran was a close partner of USA. Although Iran was never formally colonized, it always remained under the influence of colonizers. Iran’s Shah was nothing but the police of West or USA in the region.
The regime had suppressed all sections of society. Apart from censors on freedom and human rights, Shah’s sponsored westernization (sometimes called westoxification) had led the erosion of Iranian culture, weakening of Iranian nationalism and loss of sovereignty. This, consequently, fuelled the popular grievances and therefore popular rage against the regime. Therefore, participation in the movement came from all strata of society. People did not flock under one ideology. Rather, they came from many groups. Ideological and political opponents included remnant members of Mosaddegh’s National Front, Marxist-Leninist groups such as Tudeh Party, Islamic Marxists such as Mojahedine-Khalq Organization, Intellectuals, Bazaris (merchants) or petty bourgeoisie and many others.  
Hence, the question which is to be asked here is that how the revolution eventually went into the hands of ulema. How the clergy class became leaders of the revolution. And, how Iran turned into an ‘Islamic Republic’.
This is pertinent to mention here that Pahlavi dynasty, like previous regimes, had also embraced Shia Islam as its state religion. However, it did not allow it to emerge as a center of power. The Shah never co-opted clergy class. Thus Shah’s continuous efforts to erode the power base of the Shiite establishment (which had always been co-opted in previous regimes and enjoyed enormous power in the society) caused widespread disquiet among clerics and ultimately resulted into the rise of Neo-fundamentalist School of Thought (which believes that ulema are not to sit idle and just supervise the society, they are rather to be the executors of the Islamic ordinances and therefore required to be in politics) led by Imam Khomeini. Hence, ulema also stood against Shah and participated in the revolution very actively. Rather, they succeeded in becoming the leaders when the revolution was on peak.  
During the period leading to the revolution, democratic and secular forces such National Front (led by Karim Sanjabi and others) and many more tried to propel the movement with the hope of bringing in democracy and constitutional government. However, they could not build up the movement on this plain. They once again failed to succeed, as they (secularists and democrats) had twice in the past—1906 Constitutional Revolution and nationalization project of Mossaddeq in 1951-53.  
On the other hand, clergy class succeeded in consolidating themselves. It is worth noting here that Shah’s intelligence SAVAK had cracked down on every organization and their activities. They had suppressed all forms of political gatherings. But, it could not infiltrate into mosques where ulema used to organize their meetings. This worked as an impetus for clergy to rise and lead the movement.
It is significant to note that during entire period leading to the revolution, Imam Khomeini kept speaking and writing from his exile (Turkey, Iraq, and Paris), which emboldened his supremacy. His writings and speeches used to be smuggled in Iran and widely distributed among common masses. He, unlike others (secularists or democrats), had a blueprint in his hand. He not only categorically explained how to stand against the Shah but also defined the form of government (Islamic Government) based on his theory of velayat-e faqih—Guardianship of the jurisprudent, which he proposed to be established after Shah was overthrown.
Imam Khomeini: Ideologue of Islamic Republic
In Shiite tradition there was a dominant school of thought called ‘quietist school of thought’ led by leading mujtahid Ayatollah Mohammad Hussein Burujerdi. This school of thought believed that Shiism demanded quietism and submission to the authority i.e. until the return of twelfth Imam, mujtahids (the most learned of the ulema, who were expert in shariah law) were supposed to guide people in the matter of religion. They were ethical guide to the community and there was no scope for them to indulge in active politics.
However, after the death of Burujerdi there emerged two schools of thought reacting against this quietist school of thought. One is ‘Neo-fundamentalist School’, which is identified with Ruhullah Musavi Ayatollah Khomeini, born on 24th Sep. 1902, in the village of Khomein, sixty kilometers away from Tehran. The other one is ‘Reformist-Modernist School’ which is associated with the leading moderate ulema such as Ayatollah Murtuza Muttahhari and others.
Thus, Imam Khomeini led the ‘Neo-fundamentalist School’ which believed that only guiding the community would not fulfill the responsibility of ulema. After Ayatollah Burujerdi (the leader of quietist school of thought) died in the early 1960s, Khomeini gained space in the society. He, then, openly called for active participation of clerics in politics. He specifically wrote about it and appealed to the clergy to give up the belief in sitting idle. While opposing white revolution (a serried of reforms announced by the Shah) in 1963, he got an opportunity to launch his line of thinking. His followers including his students came out on the street and demonstrated the strength of clergy class. With Khomeini’s charismatic entry, it became evident that clergy class had given up its belief in remaining just a guiding entity and rather decided to embrace politics. Thus, this development emerged as a threat to the Shah. Hence, resultantly, the Shah exiled Khomeini to Turkey on 4th Nov. 1964 and thereafter to Iraq (in Nov. 1965) and then to Paris (in October 1978). However, about fifteen years of exile gave Imam Khomeini an opportunity to speak up openly against the regime. Throughout his stay in Iraq he continued speaking and writing against the regime and mobilized the people of Iran. Significantly, he also wrote about the scheme of government which he was dreaming of to establish. Apart from other writings and speeches, his thirteen speeches delivered during his stay in Najaf (Iraq) from January 21 to February 8, 1970, which have been compiled in the name of Governance of the Jurist, is the major source of his thought regarding reconstruction of Shiite Islam. It is in fact the foundation of his theory and ideology upon which Islamic Republic of Iran is built on.
Thus, Khomeini believed that Islam was not limited to worshiping. He argued that the appointment of the successor (caliph of the prophet) itself proves that the Prophet himself emphasized the inevitability of the governance. For him, presence of law (shariah) is itself more than enough to prove that there must be an executer. In his book, Governance of the Jurist, he says that, “Law requires a person to execute it……after a law is established, it is necessary also to create an executive power…….thus Islam, just as it established laws, also brought into being an executive power”.
Hence, seeing the revolution progressing to its success, the Shah left Iran on 16th January 1979. Khomeini returned to Iran on 1st February 1979. He was welcomed by millions of Iranians on the street. On 11th February Imam Khomeini appointed Mehdi Bazargan as interim prime minister, hence formally declared the end of monarchy. A referendum was held on 31st March 1979 to declare Iran as Islamic Republic with an Islamic government i.e. velayat-e faqih (Guardianship of the Jurisprudent). The newly proposed constitution included an ‘Islamic Jurist’ (Vali-e Faqih)—Supreme Leader—which was adopted in November 1979 and none other than Imam Khomeini himself was instituted as Supreme Leader.
Thus, the ultimate power was vested with Vali-e Faqih, who was considered to be above every institution of the nation (including, president, parliament, judiciary and army), in order to rule in the name of God and implement shariah. The final authority, hence, rests in Supreme Leader and therefore the entire apparatus of the nation runs in his name.  
https://countercurrents.org/2019/02/24/fortieth-anniversary-of-iranian-revolution-how-iran-became-islamic-republic/


غلاظت صاف کرنے کو روحانی عمل بتانے والے مودی صفائی ملازمین کے پاؤں کیوں دھو رہے ہیں ؟

ذات پات کو صحیح ٹھہرانے والے نریندر مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ  رہتے ہوئے اپنی کتاب’ کرم یوگی ‘میں غلاظت صاف کرنے والے دلتوں کو ان کی مجبوری کا کام نہیں بلکہ روحانیت کا کام قرار دیا تھا۔

اتوار کو الہ آباد کے کمبھ میلے میں صفائی ملازموں کے پاؤں دھوتے وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بہ شکریہ ٹوئٹر@BJP4India)
گزشتہ اتوار کو سوشل میڈیا پر پورے دن وزیر اعظم نریندر مودی کی’روح پرور ‘تصویر گردش کرتی رہی۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کو صفائی ملازمین کے پیر دھوتے ہوے دیکھنا ، بلا شبہ معمولی بات نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کے کیا معنی نکالے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کی یہ تصویر انکساری کا بے مثال نمونہ تھی۔
مگر کیا بات یہیں ختم ہوجاتی ہے؟ شاید نہیں۔وہ اس لئے کہ اس روح پرورتصویر کو دیکھتے ہوے درجنوں سوال ذہن و دماغ میں ہچکولے مار رہے تھے۔خیر، سر دست دو سوال ہیں۔ صفائی مزدروں کے لئے بے پنا ہ محبت دکھانے والے وزیر اعظم نے اپنے دور حکومت میں کیا کیاہے؟ دوسرا، صفائی مزدوروں کی بے پناہ عزت کرنے والے نریندر داس مودی کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟
2013 میں prohibition of employment as manual scavengers and their rehabilitation Act. نافذ ہو گیاتھا۔اس قانون کے تحت پورے ملک میں ہاتھ سے سیورز یا سیپٹک ٹینکز کی صفائی پر پوری طرح سے پابندی لگ گئی تھی۔مگر آپ جانتے ہیں، آج بھی صفائی مزدور اپنے ہاتھوں سے ہی غلاظت صاف کر رہے ہیں۔یعنی مذکورہ قانون ابھی تک کاغذوں میں ہی اپنا وجود لئے بیٹھا ہے۔دہلی میں صرف گزشتہ ستمبر( 2018 )میں سیورز کی صفائی کرتے ہوئے 6 مزدو روں کی موت ہو گئی تھی۔
نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری کے مطابق جنوری 2017 سے اب تک ہر پانچویں دن ایک صفائی مزدور کی موت واقع ہوئی ہے۔صفائی کرمچاری آندولن کے مطابق 2017سے18میں تقریباً 300 مزدوروں کی موت واقع ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس حوالے سے سپر یم کورٹ کے بھی کئی فیصلے آ ئے ہیں، مگر حکومت نے ہر بار بات آئی گئی کر دی۔
صفائی کرمچاری کے حوالے سے اس مختصرسی تفصیل کو جاننے کے بعد وزیر اعظم کی تصویر کتنی روحانی رہ جاتی ہے، یہ آ پ خود فیصلہ کرلیں۔خود آپ ہی یہ اندازہ لگا لیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے صفائی مزدورں کے لئے کیاکیا ہے۔مزدوروں کے لئے ٹکنالوجی سے لیس مشینیں اور مناسب تنخواہ کا بندوبست بھلے ہی موجودہ حکومت نہ کر پائی ہو، مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کروڑوں ر وپے صرف سوکش بھارت ابھیان کے پرچار میں صرف کر دیے گئے۔
دوسرا سوال ، جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ صفائی مزدوروں کے بارے میں نریندر مودی کی کیا رائے ہے۔پریاگ راج سے آئی روح پرورتصویر کو دیکھ کراس سوال کا ذہن میں آ نا با لکل بھی غیر معمولی بات نہیں ہے۔یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ حکومتی ناکامی کا ٹھیکرا کئی ساری چیزوں کے  سر پھوڑا جا سکتا ہے، مگر ان کے تئیں آپ کی رائے کیا ہے، اس سے آپ اپنا پلڑا کیسے جھاڑ یں گے۔
کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ ہمارے وزیر اعظم مصنف بھی ہیں۔ مجھ پر اس علم کا انکشاف چند مہینے قبل تب ہوا جب میں ضیاء السلام صاحب کی کتاب of saffron flags and skullcaps پرتبصرہ کر رہا تھا۔ ضیاء نے نریندر مودی کی تصنیف کا ذکر بہت تفصیل سے تو نہیں کیا ہے، مگر قدرے جانکاری ضرور فراہم کی ہے۔شاید اس وجہ سے کہ کتاب اب سرکولیشن میں نہیں ہے۔ در اصل وزیر اعظم نے سال 2007 میں’کرم یوگی’ نام کی کتاب لکھی تھی۔
فوٹو : پی ٹی آئی
فوٹو : پی ٹی آئی
اس وقت وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔101صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان کی تقا ریر کا مجموعہ تھی ۔ مگر جیسے ہی یہ کتاب منظر عام پر آئی ، تمل ناڈو اور مہاراشٹرا میں دلت سڑک پر اتر آئے تھے۔ کتاب اور کتاب کے مصنف کے خلاف متعددمظاہرے اور احتجاج ہوئے ۔ معاملہ یہ تھا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں دلتوں کے ذریعے غلاظت صاف کیے جانے کو جائز ٹھہرا دیا تھا۔ انہوں نے ان لوگوں کوبھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا یا تھاجو یہ مانتے ہیں کہ دلت یہ کام مجبوراً کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنا پیٹ پالنے کے لئے دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، یا یہ کہ سماج انہیں دوسرا پیشہ اختیار کرتے ہوے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
نریندر مودی نے اپنے جواز میں یہ بات کہی تھی کہ دلت جو کام کرتے ہیں اس کے پیچھے مجبوری نہیں بلکہ’روحانیت’پنہاں ہے۔ وہ لوگ جو اس کتاب کی مخالفت میں آ وازیں بلند کر رہے تھے ، ان کا یہ ماننا تھا کہ ایک وزیر اعلیٰ ذات پات کے نظام کو صحیح کیسے ٹھہرا سکتا ہے؟گرچہ یہ کتاب سرکولیشن سے واپس لے لی گئی تھی، اور اب یہ دستیاب نہیں ہے، مگر ضیاء نے اپنی کتاب میں جناب مصنف کی کتاب ‘کرم یوگی’ کا اقتباس رام پنیانی کی کتاب Ambedkar and Hindutwa Politics سے اخذ کیا ہے۔ میں اس اقتباس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کر رہا ہوں؛
میں یہ نہیں مانتا کہ وہ لوگ (والمیکی) یہ کام محض اپنا پیٹ پالنے کے لئے کرتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو پیڑھی در پیڑھی وہ لوگ یہ کام نہیں کرتے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کبھی نہ کبھی کسی شخص پراس علم کا انکشاف ضرور ہوا ہوگا کہ جو کام وہ کرتے ہیں در اصل وہ کرنا ان کا فرض ہے، اور اسی میں نہ صرف سماج کی بہبودگی ہے بلکہ بھگوان کی خوشنودی بھی ؛انہیں یہ کام کرنا ہے، کیونکہ یہ بھگوان کا حکم ہے۔ صفائی کا یہ کام بطور روحانی عمل صدیوں چلتے رہنا چاہئے۔یہ یقین کرنا ناممکن ہے کہ ان کے آباواجداد کو دوسرا کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کا موقع نہیں ملا ہوگا۔
نریندر مودی کی ان با توں میں ہمارے دوسرے سوال کا جواب صاف صاف درج ہے۔لہذا ، دونوں سوالوں کا جواب آپ کے سامنے ہے۔ اب اس روح پرورتصوریر کو پھر سے سامنے رکھیے اور فیصلہ کیجئے اس میں کتنی روحانیت باقی رہ جاتی ہے۔
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم  ہیں۔)

ایران:آخر نسرین ستودہ کا جرم کیا ہے؟


 ایران کی اسلامی حکومت آ ئے دن حقوق انسانی اور آزادی کے لئے آ واز بلند کرنے والے دانشوروں اور طلباء کو ہراساں کرتی رہتی ہے، یہ خبر سب سے زیا دہ افسوس ناک ہے۔

نسرین ستودہ، فوٹو بہ شکریہ، ٹوئٹر
نسرین ستودہ، فوٹو بہ شکریہ، ٹوئٹر
ایران کی مشہور حقو ق انسانی کی وکیل اور حقوق نسواں کی علم بردار نسرین ستودہ کو ملک کی عدالت نے گزشتہ سوموار کو 38 سال قید کی سزا سنائی ہے۔حکم یہ بھی ہوا ہے کہ انہیں 148کوڑے مارے جائیں۔نسرین ستودہ نے گزشتہ سال ایران کے لازمی ڈریس کوڈ یعنی حجاب کی مخالفت کی تھی۔ وہ خواتین کے اس گروپ کی نمائندہ تھیں، جنہوں نے حجاب کے لازمی استعمال کے خلاف مظاہرہ کیا تھا ۔
گزشتہ جون میں انہیں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر چھپی خبر کے مطابق عدالت نے انہیں سات الزامات میں قصور وار ٹھہرا یا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈائرکٹر فلپ لوتھر نے کہا ہے کہ ؛یہ نہایت ہی حیران کن بات ہے کہ نسرین ستودہ کو پر امن طور پرانسانی حقوق کے لئے کام کرنے اوران خواتین کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے ،جو لازمی حجاب کے خلاف مظاہر ہ کر رہی تھیں، قریب چار دہائی قید اور 148کوڑے کی سزا سنائی گئی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ حقوق انسانی کی وکیل کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ذریعے اٹھا ئے گئے اس قدم کی چو طرفہ مذمت نہیں ہو رہی ہے۔دوسری طرف ، چونکہ یہ فرمان یا سزا اسلام کے نام پر سنائی گئی ہے،لہذا مسلم دانشوران اور خصوصی طور پر علماء کی جانب سے مذمت کی کسی خبر کا نہ آ نابھی تکلیف دہ ہے۔عینی زیدی نے اپنے فیس بک پیج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوے بجا لکھا ہے کہ عام طور پر بھارت کے مذہبی لیڈرز دنیا کے ہر کونے(فلسطین، عراق، چین وغیرہ) میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں، مگر جب معاملہ ایک خاتون کی آ زادی کا ہے، اس کی عظمت کا ہے،تو سارے مرد خاموش ہیں۔انہوں نے مردوں کے ا س امتیازی رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یہ لکھا ہے کہ مرد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام کا یہ بنیادی قانون ہے کہ مذہب میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت آ ئے دن حقوق انسانی اور آزادی کے لئے آ واز بلند کرنے والے دانشوروں اور طلباء کو ہراساں کرتی رہتی ہے، مگر یہ خبر سب سے زیا دہ افسوس ناک ہے۔ شاید اسی لئے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی یہ رپورٹ کیا ہے کہ گزشتہ چند سا لوں میں ایران میں حقوق انسانی کے کارکنوں کے خلاف لئے جانے والے فیصلوں میں یہ سخت ترین ہے۔
یہ نوٹ کرنا اہم ہے کہ یہ خبر تب آئی ہے، جب ایران اپنے انقلاب کے چالیس سال پورے ہونے کا جشن منا رہا ہے۔ اوردوسری طرف تب جب ملک کے صد(حسن روحانی) کا شمار ایک ’ریفارمر‘ اور ’لبرل‘ کے طور پر کیا جا تاہے۔
ایران کے انقلاب(1979) میں ملک کی خواتین نے برابر کی حصہ داری نبھا ئی تھی۔مگر افسوسناک ہے کہ آج وہ اپنے ’آزاد‘ ملک میں بد ترین قسم کے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ پردہ یا حجاب کا استعمال گرچہ بہت حد تک ایران کے کلچر کا حصہ ہے،لیکن یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ایرانی انقلاب سے قبل اس کا استعمال لازمی با  لکل بھی نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی انقلاب میں مردوں کے ساتھ ساتھ جب خواتین بھی سڑکوں پر اترآئیں، تو ان میں نہ صرف وہ خواتین تھیں جن کے سرچادر یا حجاب سے ڈھکے تھے بلکہ ایسی خواتین بھی نمایاں تھیں جن کے لباس مغربی تھے۔یعنی باحجاب اور بے حجاب، مذہبی اور سیکولر ، امیر اور غریب سبھی عورتوں نے انقلاب میں حصہ لیا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ملک ’ آزاد ‘ ہوا، مگر دوسری طرف ملک کی خواتین پر ’غلامی‘ کے نئے روپ نے دستک دے دیا۔باحجاب عورتیں ’پاک‘ سمجھی جانے لگیں، جبکہ سیکولر اور ماڈرن خواتین کے ساتھ ’مغربی‘ اور ’بے حیا‘ جیسے القاب مسلط کردیے گئے۔انقلاب کے لیڈر آیت اللہ خمینی نے 6مارچ1979کویہ فرمان جاری کیا کہ اب ہر خاتون کے لئے حجاب اوڑھنا لازمی ہوگا۔1983میں اس فرمان کو قانونی شکل بھی دے دیا گیا جب ایران کی پارلیامنٹ نےIslamic Punishment Law پاس کر دیا اور حجاب کی خلاف ورزی کرنے پر 74 کوڑوں کی سزا مقرر کر دی۔اتنا ہی نہیں، 1995میں اس سزا میں اور اضافہ کر دیا گیا۔حجاب کے استعمال سے انکار کرنے اور اس کی مخالفت میں سرعام مظاہرہ کرنے پر 10-60 دنوں کی سزا متعین کر دی گئی۔
امام خمینی نے فروری 1979میں ایک انٹرویو میں خواتین اور حجاب کے حوالے سے جو کہا، وہ ملاحظہ کریں؛
وہ خواتین جنہوں نے انقلاب میں حصہ لیا، وہ با حیا تھیں اور ہیں۔ وہ تمہاری طرح سڑکوں پربے پردہ نہیں گھومتی ہیں، جن کے پیچھے مردوں کا جھنڈ منڈلاتا رہتا ہے۔وہ تمہاری طرح بازاروں میں نہیں پھرتی ہیں اور میک اپ کر کے اپنے گردن، خدوخال اور بال کی نمائش نہیں کرتی ہیں…
(Women and Politics in Iran: Hamideh Sedghi, 2007)
اسی طرح ایران کے پہلے صدر ابوالحسن بنی صدر نے 1981 میں حجاب کے استعمال کے لئے جو جواز پیش کیا وہ بھی ملاحظہ کرلیں؛
تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین کے بالوں سے ایک قسم کی شعاع نکلتی ہے، لہذا ان کا ڈھانکا ضروری ہے۔
(Women and Politics in Iran: Hamideh Sedghi, 2007)
1979کے ایرانی انقلاب کو عام طور پر ’اسلامی انقلاب‘ کہا جا تا ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ انقلاب عوام کا تھا۔ اس انقلاب میں لوگ اسلام کے نام پرنہیں ایران کے نام پر شامل ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ شامل ہونے والے لوگوں میں شہری بھی تھے اور دیہاتی بھی۔ مذہبی بھی تھے اور سیکولر بھی۔مرد بھی تھے اور عورت بھی۔البتہ یہ بات درست ہے کہ ’اسلام‘ نے پورے انقلاب کو اچک لیا۔امام خمینی کی لیڈرشپ میں علماء نے بڑی کامیابی سے مذہب کا رس گھول دیا اوردیکھتے ہی دیکھتے انقلاب اسلامی ہوگیا۔
یہ سب ’غرب زدگی‘ (westoxiation)کے نام پر ہوا۔ مغرب کے خلاف نفرت کو بھڑکا یا گیا۔ اور ہر وہ چیز جو ’ مغربی ‘ تھے اسے قبیح قرار دیا گیا۔انقلاب تو کامیاب ہو گیا، اور ملک کوبادشاہت کے چنگل سے نجات بھی مل گئی، لیکن کیا ملک واقعی آزاد ہوا، یہ سوا ل اب بھی زندہ ہے۔اسی ’غرب زدگی ‘ کی بنیاد پر جس کے سہارے انقلاب کو ’اسلامی ‘ بنا یا گیا تھا، آج ملک کی اسلامی حکومت انفرادی آزادی کے نام پر اٹھا ئے گئے ہر آ واز کو دکچل دیتی ہے۔ملک کو بھلے بادشاہت سے آزادی مل گئی ، لیکن لوگوں کو آج بھی آ زادی میسر نہیں ہوی ہے۔ اور جہاں تک خواتین کا سوال ہے، وہ تو برابر کی شہری بھی نہیں ہیں۔

http://thewireurdu.com/56231/iran-what-is-the-crime-of-nasrin-sotoudeh/
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم  ہیں۔)